Bio-Data
ڈاکٹر مقتدى حسن ازہری (1939-2009) نے تقريبا نصف صدی تک تعليم وتدريس، تصنیف وترجمہ اور صحافت كی وادی كو اپنے افكار كى تابانی سے منور كيا تها۔ ان كے كام اور كارنامے كے تنوع كو ديكهتے ہوئے انہيں ايک جلؤه صد رنگ شخصیت كہا جائے تو مبالغہ نہيں ہوگا۔ انہوں نے مشرق كے علمى سرچشموں سے علم وفن كے لعل وگہر سمیٹے تھے، مئو كے مدارس (شاخ دار العلوم، مرزاہادی پوره، جامعہ عاليہ، جامعہ فیض عام اور جامعہ اثريہ دارالحديث)، جامعہ ازہر، قاہره اور مسلم يونيورسٹى على گڑھ يہی ان كی تعلیمی جولان گاه تھی۔ قاہرہ سے واپس آنے کے بعد جامعہ سلفیہ، بنارس سے منسلک ہوگئے اور پھر اسی كے ہوكر رہ گئے، چار دہائی سے زياده مدت تک ادب، انشاء، تفسیر اور تاريخ كا درس ديا، جامعہ نے ان كو اپنی علمى استعداد اور انتظامی صلاحيت كے استعمال كے لئے ايک وسيع اور وقیع پلیٹ فارم عطا كيا، يہيں سے ان كی علمی اور عالمی شناخت بنی پهر خود جامعہ كا شناخت نامہ بن گئے۔ ملک اور بيرون ملک جامعہ كی نمائندگی کی، جامعہ ميں ملكی اور عالمی سطح كے سيمينار منعقد كراكے علم كے كتنے گوشوں پر عالمانہ اور دانشورانہ بحث كا آغاز كيا بوريے پر بیٹھ كر طلبہ كے سامنے علم وہنر كے موتى بکھیرے، ان كو دين ودانش کی نئى نئى راہوں سے آشنا كرايا، ان كی تحريك اور ترغیب پر طلبہ ميں عربى لکھنے كا رواج عام ہوا، ان كی تربيت ميں پلے كتنے لوگ اچھی عربى لكھنے لگے۔
ڈاكٹر ازہرى ايك جيد عالم ہى نہيں ايك انقلابى فكر ركھنے والے اسكالر، نامور صحافى اور اردو عربى كے مايہ ناز اہل قلم بھى تھے۔ ان كے تبحر اور عبقريت كے سب معترف تھے اور اسى پہلو سے ان كی شناخت تهى۔ وه صاحب تصانيف كثيره تھے۔ اردو اور عربی میں ان كی متعدد كتابيں اور مقالات شائع ہوچكے ہیں، جن كے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا جہان تخلیق متنوع اور بو قلموں ہونے کے ساتھ معیاری بھی ہے۔ انہوں نے ادبیات اور دینیات کے ساتھ تعلیم وثقافت کے موضوعات پر خصوصی توجہ دی ہے۔ ترجمہ وتصنیف کی وادی میں گل بوٹے کھلائے، عربی، اردو کے علاوہ فارسی زبان کی کتابوں کو بھی عربی قالب عطا کیا، چند کتابوں کے نام ملاحظہ فرمائیں:
اردو تصانیف:
- مختصر تاریخ ادب عربی
- خاتون اسلام
- مسلم نوجوان اور اسلامی تربیت
- دینی مدارس میں عربی اور اسلامیات کی تعلیم: تنظیم نو، ضرورت اور امکانات
- اسلام اور تحفظ انسانیت
عربی تخلیقات:
- صور من نشاط المدارس الإسلامية
- الدعوة الإسلامية في الهند: تحديات الواقع وآفاق المستقبل
- التربية الدينية السليمة ودورها في مواجهة التحديات المعاصرة
- العلامة الشيخ أبو الوفاء ثناء الله الأمرتسري وجهوده في الرد على الفرق الضالة وإنهاض ثقافة الحوار المذهبي والحضاري
- مشكلة المسجد البابري في ضوء التاريخ والكتابات المعاصرة
اردو سے عربی ترجمے:
- حركة الانطلاق الفكري وجهود الشاه ولي الله في التجديد
- حجية الحديث النبوي
- رحمة للعالمين
- الإسلام: تشكيل جديد للحضارة
- عصر الإلحاد: خلفيته التأريخية وبداية نهايته
عربى سے اردو ترجمے:
- مختصر زاد المعادفی ہدی خیر العباد
- عظمت رفتہ: مسلم حکومتوں کے زوال کا عبرت آموز جائزہ
- رسالت کے سائے میں
- راہ حق کے تقاضے
- نامور مصری ادیب العقاد کی آپ بیتی
ڈاکٹر ازہری جامعہ سلفیہ کے عربی آرگن ‘صوت الأمة’ کے چالیس سال تک مدیر رہے، ان کے اداریے/ مقالات نے عالم عرب کو ہندستانی مسلمانوں کے سیاسی، سماجی، دینی، تعلیمی اور ثقافتی مسائل سے روشناس کرایا۔ چند مقالات کے عناوین ملاحظہ فرمائیں:
- مجالات الوقت المؤثرة في الدعوة إلى الله تعالى
- فضل العلم في الكتاب والسنة ومسؤوليات العلماء في هذا العصر
- الإسلام هو الطريق الوحيد لتحقيق سعادة البشرية
- مساهمة السيد نواب صديق حسن الحسيني البخاري في أدب الدعوة والإصلاح
- كيف نعلم ولماذا؟
ڈاکٹر ازہری کے علمی انتاجات، ترجمے، ادبی وثقافتی نشاطات اور دانشورانہ بصیرت کے اعتراف ومقبولیت کادائرہ مسلکی اور ملکی حدود سے پرے تھا۔ ان کی وفات کے بعد سے لگاتار ان کی علمی شخصیت اور دینی خدمات کے متنوع گوشوں کی تفہیم کا سلسلہ جاری ہے۔